سنگاپور،21نومبر(ایجنسی) برسوں سے یہ بات تو معلوم ہے کہ وہ طالب علم جو امتحان کا خوف اپنے سر پر سوار کرنے کے بجائے ایک رات پہلے آرام کرتے ہیں اور صبح تازہ دم ہوکر کمرہ امتحان میں پہنچتے ہیں وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کے نمبر بھی اچھے آتے ہیں۔ البتہ اس کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ انہوں نے پہلے سے امتحان کی تیاری کر رکھی ہو۔
وہ طالب علم جو پورا سال آرام کرنے کے بعد امتحان قریب آنے پر ہوش میں آتے ہیں اور صرف چند دنوں کے لیے روزانہ کئی کئی گھنٹوں تک پڑھائی کرنے کے علاوہ امتحان سے پہلے کی پوری رات بھی جاگ کر تیاری کرتے ہیں وہ نہ تو کمرہ امتحان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر پاتے ہیں اور نہ ہی امتحان میں ان کے اچھے نمبر آتے ہیں۔
اب اس بات کی تصدیق ایک
نفسیاتی مطالعے سے بھی ہوگئی ہے جو سنگاپور کے ڈیوک این یو ایس میڈیکل اسکول میں انجام دیا گیا، مطالعے میں 72 طالب علم شریک کیے گئے ان سب کو پہلے 80 منٹ تک ایک ایسے موضوع کے بارے میں لیکچر دیا گیا جس کے بارے میں وہ پہلے سے نہیں جانتے تھے۔ لیکچر کے بعد انہیں 3 گروپوں میں تقسیم کردیا گیا جن میں سے ایک گروپ نے اگلے ایک گھنٹے تک اپنی من پسند فلم دیکھی، دوسرا گروپ سونے (آرام کرنے) چلا گیا جب کہ تیسرے گروپ نے اس دوران وہی لیکچر دُہرایا جو کچھ دیر پہلے دیا گیا تھا۔
منتخب کیے گئے طالب علموں میں 80 منٹ کا ایک اور لیکچر دیا گیا جس کے بعد ایک ٹیسٹ کے ذریعے معلوم کیا گیا کہ پہلے لیکچر کے دوران پڑھائی گئی باتیں انہیں کس حد تک یاد ہیں۔ ٹیسٹ کے نتائج سے معلوم ہوا کہ وہ طالب علم جو درمیان میں ایک گھنٹے کے لیے سوگئے تھے (یا قیلولہ کررہے تھے) انہوں نے باقی 2 گروپوں کے مقابلے میں کہیں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جب کہ وہ گروپ جو مسلسل پڑھتا رہا اس کی کارکردگی دوسرے نمبر پر رہی۔